محسن شیخ کی فیملی آج بھی اِنصاف کی منتظر ہے انصاف ظالموں کی حمایت میں جائیگا یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائیگا .

  ،محسن شیخ کی فیملی آج بھی اِنصاف کی منتظر ہے

    

  انصاف ظالموں کی حمایت میں جائیگا 

             یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائیگا

.


رنگ برنگی پھولوں کی طرح الگ الگ دھرموں  مذہبوں  سے پہچانے جانے والا  ہمارا یہ دیش پچھلےکچھ سالوں  سے بکھرے ہوئے چمن اور مرجھائے  ہوئے پھولوں کی طرح اُجڑ چکا ہے ۔ تہزیب اور ثقافت والے اس دیش میں چند ہی سالوں میں فرقہ پرست عناصر نے نفرتوں اور عداوتوں کا ایسا زہریلا جال بچھایا ہے کہ جسکی چپیٹ میں ہزاروں بے قصور اور معصوموں نے تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں گنوادی۔فرقہ پرستوں کی طرف سے لگائی گئ ،ہجومی تشدد، کی  اس آگ نے صرف ملک کے 1 حصّے کو نہیں بلکہ ملک کے کونے کونے تک کو اس آگ کے چپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور اس ہجومی  تشدّد کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہونے کی وجہ سے یہ سلسہ آج تک جاری ہے۔ اور موجودہ سرکار کی خاموشی یہ بتلاتی ہے کے حکومت ۔موب لینچنگ۔ جیسی گھنونی حرکت پر تماشائی بنی ہوئی ہے۔اور یہ خاموشی صرف اس لیے ہےکہ ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے لوگوں کا تعلّق ایک خاص طبقہ سے ہے اسکی ایک سیدھی سی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج سے تقریاًً 6 سال قبل 2 جون 2014 کو مہاراشٹرا کے پونے شہر میں محسن شیخ نامی ایک سافٹ وئیر انجینئر کو صرف ایک خاص طبقہ سے تعلّق اور اسکی مذہبی شناخت کی وجہ سے بھیڑ نے اسے نشانہ بنایا تھا اُس بے گناہ معصوم نہتے نوجوان کو فرقہ پرست غنڈوں نے پتھروں اور لاٹھیوں سے مار کر اُسکے سارے جِسم کو چّھنّی کردیا جس سے تڑپ تڑپ کر محسن شیخ کی جان چلی گئی محسن کے قتل کا واقعہ صوبہ مہاراشٹرا کے ساتھ ساتھ  پورے دیش میں آگ کی طرح پھیلا اور ملک سے محسن شیخ کے انصاف کے مطالبے کی آوازیں بلند ہونے لگی خود محسن شیخ کے ضعیف والد اور اسکے بھائی نے پُرزور انداز میں ریاستی حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ ریاستی سرکار نے شروعاتی مرحلے میں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کا ڈھونگ رچایا اور محسن شیخ کے فیملی کو  انصاف کی امید دلائی گئی لیکن بدنیت حکومت کا اصلی چہرہ اُس وقت سامنے آیا جب اِسی مقدمہ کی پیروی کر رہے اسپیشل سرکاری وکیل اجول نگم نے خود کو اس مقدمہ سے الگ کرلیا اور اجول نگم نے ایک چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اس کیس کو چھوڑنے کی ایک معمولی نہ ہضم ہونے والی وجہ بتلائی ۔ جب محسن شیخ کے مظلوم باپ کو اس بات کی اطلاع ملی تو یہ خبر محسن کے والد اور انکی فیملی پر بجلی کی طرح گری جس پر انہوں نے ایڈوکیٹ اجول نگم سے رابطہ کرنے کی بار بار کوشش کی لیکن نتیجہ کے طور پر مایوسی ہی ہاتھ لگی جسکا بہت برا اثر محسن شیخ کے  کی فیملی پر ہوا جس سے انکے لڑنے کی طاقت اور کمزور ہوگئی۔ حکومت محسن کی فيملی کے ساتھ اِسی طرح سے آنکھ مچولی کھیلتی رہی اور ادھر محسن کی فیملی نے حکومت سے انصاف کی آس لگائے رکھی۔ اِسی اثنا میں وقتی طور پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی چکّر میں پرتھوی راج چو ہان کی حکومت نے محسن شیخ کی فیملی کو مدد کے طور پر 50 لاکھ روپئے اور اسکے چھوٹے بھائی مبین شیخ کو سرکاری نوکری دینے کی یقین دھانی کرائی لیکن محسن کی فیملی کو کیا معلوم انسے کیا جانے والا یہ وعدہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پوری طرح کھوکھلا ثابت ہوگا۔ وہ مظلوم باپ نے اپنے بیٹے محسن  کو انصاف دلانے کیلئے اور فیملی کو ملنے والی مدد اور نوکری کے لیے مسلسل ایک لمبی لڑائی لڑی۔ لیکن وہ مظلوم اور لاچار اکیلا باپ ہمدردی کا ڈھونگ رچا نے والے کھوکھلے سسٹم سے کب تک لڑتا آخر کار انصاف کے ملنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارا ہوگیا۔نوجوان بیٹے کا غم اور صدمہ اتنا تھا کے وہ غم اور پریشانی کی وجہ سے اپنی بیماری کا صحیح سے علاج بھی نہیں کروا سکے اور اس لاپرواہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرض بڑھتا گیا اور ایک دن دل کا دورہ پڑنے سے انکی موت ہوگئی۔ مظلوم محسن کے والد نے انصاف کی آس میں سسک سسک کر دم توڑ دیا جبکہ ظالم درندے ضمانت پر آزاد کسی اور مظلوم لاچار وہ بےبس محسن کی تلاش میں گھوم رہے ہیں ۔انصاف میں تاخیر انصاف نہ ملنے کے برابر ہے۔ سرکاری وکیل اجول نگم کے کیس لڑھنے سے انکار کے بعد اس مقدمہ میں آخری درجہ کی لاپرواہی برتی گئ اور حکومت کی بے توجہی اور اجول نگم کی دستبرداری کا یہ نتیجہ نکلا کے اُن ظالم درندوں کو آسانی سے ضمانت ملگئی اور بمبئی ہائے کورٹ نے ایک عجیب سا ترک دیا کے قتل میں شامل ان ملزمین کو قتل کے لیے اُکسایا گیا تھا یہ کہتے ہوئے انہیں ضمانت دیدی جس پر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر تعجب کا اظہار کیا۔ لیکن یہ تمام چزیں رسمی باتوں تک ہی محدود بنکر رہ گئی۔ جبکہ ایک انٹرویو میں محسن کے بھائی مبین شیخ نے کہا کہ محسن کے قتل میں تمام چیزیں واضح تھی ملزم پکڑے جا چکے تھے گواہ بھی موجود تھے لیکن اسکے باوجود انصاف میں تاخیر کی گئی میرے والد جس سماج پراور اسکے عدلیہ پر اعتماد کے ساتھ جی رہے تھے اُسنے انکے اعتماد کو توڑ دیا میرے بھائی کے ساتھ ہُوئی نا انصافی کا درد لیکر میرے والد بلکتے رہے اور یہاں تک کہ وہ چل بسے اب اگر انصاف ہوگا بھی تو وہ میرے لئے عدالت کا فیصلہ ہوگا۔ مبین شیخ نے کہا کہ محسن کے حادثہ نے میرے والدین کو بہت گھرا صدمہ پہنچایا دن رات میرے والد محسن کو یاد کیا کرتے تھے اسے انصاف دلانے کی بات کیا کرتے تھے شولاپور سے پونے کورٹ کے چکّر لگایا کرتے تھے میں بھی انکے ساتھ جایا کرتا تھا میرے بیٹے کو انصاف ملیگا۔ اِسی اُمید میں وہ جی رہے تھے۔۔۔الغرض دوستوں لیکن انہیں کیا معلوم انتظامیہ انصاف دلانا ہی نہی چاہتی تھی اور حکومت کی طرف سے پوری طرح لاپرواہی برتی گئی اِسی وجہ سے دھننجے دیسائی جو اس قتل کا اصلی مجرم تھا اسکو اور اسکے ساتھیوں کو ضمانت ملگئ۔ جیل سے باہر آتے ہی ملزم ڈھننجے دیسائی کے استقبال میں جنگی پیمانے پر ریلی نکالی گئی لیکن میں سمجھتا ہوں وہ ایک ریلی نہی تھی بلکہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں  والدین کو ایک چیلنج تھا کے اگلا نمبر آپ کا ہے۔ اس کو کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ۔ اُسکے قتل پے میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا۔۔ میرے قتل پے آپ بھی چپ ہے اگلا نمبر آپ کا ہے ۔۔۔قارئین۔ آپ  خود اندازہ لگا لیجیۓ ایک ضعیف باپ جو اپنے مظلوم اور لاچار مقتول بیٹے جسکو فرقہ پرستوں نے انتہائی بے دردی سے قتل کیا تھا اُسکے مجرموں کو سزا دلانے کے لیے دن رات اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تڑپ رہا ہو اور اسی باپ کے سامنے اسکے بیٹے کے قاتل کو رہا کردیا گیا ہو اور وہ قاتل سارے شہر میں آزاد گھوم رہا ہو تو اس باپ کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی میں اور آپ اُسکا تصوّر بھی نہی کرسکتے ۔ آج بھی محسن شیخ کی فیملی انصاف ملنے کی منتظر ہے۔اور ظالم قاتل ضمانت پر گھوم رہے ہیں اور پورا سسٹم تماشائی بنا ہوا ہے۔ انصاف کی لڑائی میں اب محسن کی فیمیلی میں بس انکا بھائی اور انکی والدہ رہیگئی ہے۔ انصاف کو لیکر انکا بھروسہ ٹوٹ چکا ہے۔ لیکی ایسے سنگین اور مایوس کن حالات میں وہ خود کو اکیلا بے سہارا اور پریشان محسوس کر ہے ہیں انکی اس تڑپ کو دیکھ تے ہوئے مہاراشٹرا کے مختلف علاقوں سے کچھ نوجوان محسن شیخ کی فیملی کو اِنصاف دلانے کے لئے ایک مضبوط اور مستحکم  حوصلہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ان زندہ دل ملّت کا درد رکھنے والے نوجوانوں نے پچھلے کچھ سالوں سے ۔جسٹس فار محسن۔ کے نام سے ایک مضبوط اور جاندار مومنٹ چلایا ہے جسکا بہت بڑا اثر حکومت پر پڑھ رہا ہے۔ اور محسن شیخ کی فیملی کو بھی اس مومنٹ سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہے۔ تو آئیں ہم اور آپ ملکر آنے والی 2 جون کو جسٹس فار محسن۔ کے پلیٹ فارم سے پورے ملک میں انصاف کی آواز کو بلند کریں۔ اور محسن کو انصاف دلانے کے لیے 2 جون کو جسٹس فار محسن مومنٹ کی طرف سے ہونے والے اس پروٹست میں پوری طرح حصہ لیں۔

 اُسکے قتل پے میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا۔۔

 میرے قتل پے آپ بھی چپ ہے اگلا نمبر آپ کا ہے


مولانا محمد مبین صدّیقی 

صدر جمعیت علماء ضلع ہنگولی مہارشٹر ا

                                                     9922527627

टिप्पणी पोस्ट करा

0 टिप्पण्या