صحافیوں کے اظہار رائے کو کیدار ناتھ فیصلے کے مطابق تحفظات حاصل۔۔
ونود دووا پر لگے الزامات پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ۔۔
آزادئ صحافت پر عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار۔
۔
لاتور (محمد مسلم کبیر) آئے دن صحافیوں پر مختلف الزامات کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔کبھی حکومت کی جانب سے تو کبھی سرکاری دفاتر سے، اب اس طرح کے حالات مقدمات کو درج کروانے سے خود پولیس شعبہ اپنے قلم روک ل گا چونکہ سپریم کورٹ نے ملک میں صحافیوں پر درج ہونے والے غداری کے مقدمات کے تعلّق سے آگاہ کیا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس طرح کا مقدمہ درج کرنے سے قبل پولیس کو چاہیے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کے تحت کھینچے گئے دائرے میں سن 1962 میں کیدار ناتھ سنگھ کیس میں غداری کے الزامات کے تحت دیئے گئے تحفظ کا ملک کا ہر صحافی مستحق ہے۔ یہ بات عدالت عظمی نے جمعرات کو کہی۔ سپریم کورٹ نے سینئر ونود دووا کے خلاف غداری کے مقدمے کو بھی ختم کردیا۔ سپریم کورٹ نے 1962 ء میں ہندوستانی تعزیری ضابطہ کے تحت غداری کے دائرہ کار اور دائرہ کار سے متعلق ایک درخواست پر عدالت نے کیدارناتھ سنگھ کیس میں فیصلہ سنایا تھا۔ دفعہ 124 اے کی صداقت کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ کسی شہری پر حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے پر غداری کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے اپنے سوشل میڈیا پروگرام میں وزیر اعظم پر تنقید کرنے پر ان کے خلاف دائر غداری کیس میں ونود دووا کے حق میں فیصلہ سنایا۔ 'کیدار ناتھ معاملے کے مطابق صحافیوں کے اظہار رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے معاملے پر جسٹس اودئے للت اور جسٹس وینیت سرن کے بنچ نے کہا ، "ہر صحافی غداری کے الزامات کے خلاف تحفظ پانےکا مستحق ہے۔" تاہم ، عدالت نے ونود دووا کی اس درخواست کو مسترد کردیا کہ دس سالہ تجربہ کار کسی بھی صحافی کو اعلی سطحی کمیٹی کی اجازت کے بغیر فرد جرم عائد نہیں کی جانی چاہئے۔ تاہم عدالت نے کہا کہ ایسا کہا کہ اس طرح کے مطالبے کی منظوری سے ایگزیکٹو کے اختیارات پر تجاوزات ہوگی۔ بی جے پی کے رہنما شیام نے شملہ کے کمارسین پولیس اسٹیشن میں ونود دووا کے خلاف بغاوت ، عوامی الجھن اور توہین آمیز مواد کی اشاعت کے الزام میں شکایت درج کروائی تھی۔ پولیس نے ونود دووا کے خلاف گذشتہ سال 6 مئی کو مقدمہ درج کیا تھا۔ اپنے شکایت میں شیام نے کہا تھا کہ ونود دووا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کچھ الزامات لگائے ہیں۔ عدالت نے ہماچل پردیش حکومت اور بی جے پی رہنما شکایت کنندہ کے دلائل سننےکے بعد بینچ نے گذشتہ سال 6 اکتوبر کو ونود دووا کی جانب سے دائر درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس سے قبل 20 جولائی کو عدالت نے ونود دووا کے خلاف سخت کارروائی سے محفوظ رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دووا کو اس سلسلے میں ہماچل پردیش پولیس کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی ضمنی سوالات کے جوابات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ونود دووا نے درخواست کی تھی کہ ہر ریاستی حکومت کو کم سے کم 10 سالہ تجربہ کارصحافیوں کے خلاف شکایات پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینا چاہئے۔ کمیٹی میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کے مقرر کردہ جج ، اپوزیشن لیڈر اور ریاست کے وزیر داخلہ کو شامل کیا جانا چاہئے۔ ونود دووا نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ کمیٹی کی منظوری کے بغیر متعلقہ صحافی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ کیا جائے ، لیکن عدالت نے ان کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔مگر جسٹس یو۔یو للیت اور ونیت سرن کی بینچ نے 1962 میں کیدار ناتھ بنام حکومت بہار معاملے میں آئے فیصلے کا حوالہ دیا۔اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے شہریوں پر بغیر کس ٹھوس جواز کے تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کا مقدمہ درج کرنے کو غلط بتایا تھا۔عدالت نے کہا تھا کہ جب کسی کے اظہار رائے سے عوام بغاوت یا فسادات کرنے لگیں تبھی اس کو غداری کے درجے میں مانا جانا چاہئے۔عدالت آج کہا کہ صحافی اپنے کام کے دوران جو اظہار کرتے ہیں اُنہیں کیدار ناتھ فیصلے کے تحت تحفظات حاصل ہیں۔
عدالت کے اس فیصلے سے صحافیوں نے مسرّت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ صحافی اب حکومت کے غلط فیصلوں اور عوامی مفاد کے خلاف فیصلوں پر کھل کر اظہار رائے پیش کر سکیں گے۔
0 टिप्पण्या
Do not enter this spam link in comment comment box.