ہمیں سیکولر ازم کا سبق نہ سکھایا جائے۔

 ہمیں سیکولر ازم کا سبق نہ سکھایا جائے۔

مستقیم مکی

(ایڈیٹر ہدیٰ ٹائمز ممبئی)




ملک کی پانچ ریاستوں میں الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے، ان ریاستوں میں اچھی خاصی تعداد مسلم ووٹروں کی ہے او ربہت سی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان ووٹر کسی کی بھی ہار یا جیت کا فیصلہ کرتے ہیں، مجموعی طور پر کسی بھی الیکشن میں مسلمانوں کا ووٹ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس پارٹی کو مسلمانوں کا ووٹ مل جاتے ہیں وہ مالا مال ہوجاتی ہے اور آنے والے پانچ سالوں تک مسلمانوں کو نظر انداز کرکے اقتدار کے مزے لوٹتی ہے، کبھی کبھی مسلم ووٹوں کے انتشار سے بھی کسی کو فائدہ پہنچ جاتا  ہے اوروہ پارٹی بھی آنے والے پانچ سالوں تک عیش کرتی ہے اور مسلمانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ آزادی کے بعد سے ۷۰ سالوں تک سیکولر ازم کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دیاگیا، ہمیشہ ان کے سامنے فرقہ پرستوں کا ہوا کھڑا کیاجاتا ہے، اور ان سے کہاجاتا ہے کہ اگر تم نے ہمیں ووٹ نہیں دیا تو یہ فرقہ پرست تمہیں کچا چبا جائیں گے اور یہی دائواس وقت بھی کھیلا جانے والا ہے۔

آزادی کے بعد ملک میں کم وبیش ۵۰ سالوں تک مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں رہیں، اس کے علاوہ اور بھی کئی پارٹیاں سیکولر ازم کی دعویدار بن کر آئیں جب جی چاہا سیکولر ازم کا مکھوٹا لگالیا، جب جی چاہا فرقہ پرستوں سے دوستی گانٹھ لی، ماضی قریب اور ماضی بعید میں اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن ان خود ساختہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے خواہ وہ کانگریس ہو یا دیگرپارٹیاں آخر انہوں نے مسلمانوں کو دیاکیا؟ سچر کمیٹی کی ر پورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی اور معاشی میدان میں دلتوں سے بھی بہت پیچھے ہیں، آزادی کے بعد ملک بھر میں سینکڑوںکی تعداد میں بڑے اور ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ان فسادات میں یک طرفہ طور پر مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا، مظلومین کو کبھی انصاف نہیں ملا اور ظالموں کو کبھی سزا نہیں ملی، ان فسادات کی جانچ کےلیے بہت سے کمیشن قائم ہوئے ان میں سب سے نمایاں سری کرشنا کمیشن ہے، انہو ںنےتقریباً چھ سال کی محنت اور عرق ریزی کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی تھی اس پر آج تک عملدرآمد نہیں کیاگیا۔

بابری مسجد کی شہادت آزادی کے بعد رونما ہونے والا ایک بہت بڑا المیہ ہے، مسجد کے اندر رات کے اندھیرے میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد سے ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ کو مسجد کی شہادت تک کانگریس کی ہی حکمرانی تھی، آج تک اس معاملہ میں مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا، نہ آئندہ ملنے کی امید ہے، فرقہ پرستوں کی ریشہ داوانیاں اپنی جگہ سیکولر ازم کے خود ساختہ نام نہاد علمبرداروں کا دامن بھی نہایت داغ دار ہے۔

زیادہ دور نہیں جاتے ہیں، ماضی قریب میں لالو پرساد یادو نے بہار میں ۱۵ سال تک حکمرانی کی، ربع صدی تک بائیں بازو والوں نے مغربی بنگال میں حکومت کی اس کے بعد ممتا بنرجی نے حکومت کی، اترپردیش میں ملائم ، مایاوتی اور اکھلیش یادو نے سیکولر ازم کے نام پراقتدار کے مزے لوٹے، مسلمان محروم ہی رہے، مہاراشٹر میں ۱۵ سال تک کانگریس اور این سی پی کی مخلوط حکومت قائم رہی، یہاں مسلمانوں کے سا تھ کیا ہوا یہ بھی سب کے سا منے ہے۔

غرضیکہ سیکولر ازم کے نام پر سیکولر ازم کے نام نہاد علمبرداروں نے مسلم ووٹوں کی بدولت جم کر عیش کیا او رمسلمانوں کو عملاً کچھ نہیں دیا، ایک مرتبہ پھر اسی سیکولر ازم کی دہائی دیتے ہوئے سب کے سب سرگرم ہوگئے ہیں اور مسلم ووٹوں پر گدھ کی طرح للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ایک مرتبہ پھر فرقہ پرستی کا ہوا کھڑا کیاجارہا ہے اور مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش ہورہی ہے، ہماری ان تمام ریاستوں میں جہا ںالیکشن ہورہے ہیں اور مسلمانوں کی خاصی تعداد آباد ہے ان سے درخواست ہے کہ وہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں او ر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ جس پارٹی اور جس امیدوار کو اپنے لیےبہتر سمجھیں اس کے ساتھ معاملات کریں اور متحد اور منظم ہوکر اپنا سارا وزن اسی کے پلڑے میں ڈال دیں ، نام نہاد قائدین کی غلامی کا پٹہ ہمیشہ کےلیے اپنے گلے سے اتار پھینکیں اور جو پارٹیاں سیکولر ازم کے نام پر مسلمانوں سے ووٹ مانگ رہی ہیں ان کےلیے ہمارا پیغام ہے کہ مسلمانوں کے کندھے سیکولر ازم کی سڑی گلی اور بدبودار لاش کو ڈھوتے ڈھوتے شل ہوچکے ہیں اور وہ اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

टिप्पणी पोस्ट करा

0 टिप्पण्या