تعزیتی مضامین اور ویبیناروں سے آپ نے 'فرض کفایہ' تو اداکردیا ، اب 'فرض عین ادا' کرنے کی جانب قدم بڑھائیں میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں کہ مرحومین کو یاد کرنے کے اس رائج الوقت طریقے میں اب میری دلچسپی نہیں رہی ؟ کالم : بازیافت

 تعزیتی مضامین اور ویبیناروں سے آپ نے 'فرض کفایہ' تو اداکردیا ، اب 'فرض عین ادا' کرنے کی جانب قدم بڑھائیں

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں کہ مرحومین کو یاد کرنے کے اس رائج الوقت طریقے میں اب میری دلچسپی نہیں رہی ؟

کالم : بازیافت

اشرف علی بستوی

 

پچیس اگست کو اردو کے سینئر صحافی عبدالقادرشمس بھی ہم سب کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے ، آمین ۔ یہ اندوہناک خبر صحافتی برادری پر بجلی کی طرح گری ۔ انتقال سے دوروز قبل ہی سینئر صحافی عامر سلیم خان نے مجھے فون کر کے ان کی صحت کا تازہ اپڈیٹ لینے کو کہا تھا میں نے ایک صاحب سے معلوم کیا وہ کہنے لگے ابھی کچھ افاقہ ہے ، لیکن دو دن بعد ہی اچانک سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کی اطلاع ملی ۔ تھوڑی دیر کےلیے ذہن مائوف سا ہوگیا اور ان سے ملاقاتوں کے مناظر نظرکے سامنے تیرنے لگے ،ان کا مسکراکر مخاطب ہونا اور حال دریافت کرنا ہمیشہ ذہن میں تازہ رہے گا ۔

مرحومین کو یاد کرنے کے اس رائج الوقت طریقے میں اب میری دلچسپی نہیں رہی 

 ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سے ابتک کئی بڑی اہم شخصیات نے ان کی صحافتی خدمات پربہت کچھ لکھا ہے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان کی یاد میں تعزیتی ویبینارمنعقد ہو رہے ہیں،عنقریب یہ مضامین کتابی شکل میں بھی ہمارے سامنے ہوں گے جس سے بعد کی نسلیں شمس صاحب کی صحافتی خدمات کے بارے میں جان لیں گیں ۔ کسی شخص کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اسے یاد کرنے کا رائج الوقت طریقہ یہی ہے اس سے کسی کو کیا اعتراض ، لیکن مجھے اس طرح کے ویبیناروں میں نہ جانے کیوں اب دلچسپی نہیں رہی اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اس طرح کی تعزیتی نشسستوں، سمیناروں اورویبیناروں میں  لوگ کچھ زیادہ ہی بول جاتے ہیں ، حاضرین کی وقتی توجہ حاصل کرنے کے لیے کبھی نہ عمل کیے جانے والے اعلانات تک کر ڈالتے ہیں ۔

 حاضرین میں موجود سراج الدین قریشی نے اس تجویزکوخوب سراہا تھا؛لیکن افسوس وہ صبح ابھی تک نہیں آئی

 مجھے یاد پڑتا ہے 27 جنوری 2018 کو راشٹریہ سہارا سے وابستہ رہ چکے سینئر صحافی سلیم صدیقی صاحب  کے انتقال کے بعد  انڈیا اسلامک  کلچرل سینٹر میں تعزیتی پروگرام ہوا جس میں دہلی کی اردو صحافتی برادری سمیت سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی بھی اپنے رفقاء کے ہمراہ شریک ہوئے ، سلیم صاحب کی صحافتی خدمات پر مقررین نے پر مغز گفتگو کی بات یہ بھی ہوئی کہ صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ایسا فنڈ قائم کیا جانا ضروری جس سے ایسے حالات میں متاثرہ خاندان کی مالی مدد کی جائے ، حاضرین میں موجود سراج قریشی صاحب نے اس تجویزکوخوب سراہا اور ایک ایسا فنڈ فوری طورپرقائم کرنے کا اعلان کیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ ہم اسے قائم کریں ، یا 'ورکنگ جرنلسٹ کلب'جس کے سلیم صاحب بانی صدر تھے اسے ہی یہ فنڈ مہیا کرا دیا جائے گا ۔ لیکن افسوس وہ صبح ابھی تک نہیں آئی اس دن کا ابھی تک انتظار ہے،لیکن اس معاملے میں کلچرل سینٹرکویکطرفہ طور پرذمہ دارقرارنہیں دیا جا سکتا اس کے لیے'ورکنگ جرنلسٹ کلب' کے ذمہ داروں نے فنڈ کے قیام کے لیےکیا پلان ورک آوٹ کیا ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا۔

میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں ؟ 

دراصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر اردو صحافی جو کسی بھی ادارے میں کام کرتا ہے سب کی حالت معمولی فرق کے ساتھ عموما ایک جیسی ہی ہوتی ہے ، زندگی بھر اسے ایک دن بھی اطمینان میسر نہیں آتا اس کی بنیادی وجہ معاشی کشمکش ہوتی ہے، اور جب ایسے حالات میں کوئی دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تواس کے گھریلوحالات ،بچوں کی تعلیم کی صورت حال کیا ہوتی ہوگی یہ تو خورشید عالم اور سلیم صدیقی کے  اہل خانہ ہی بتا سکیں گے ۔ خورشید عالم اتر پردیش کے کانپور شہر کے رہنے والے تھے دہلی میں تین دہائیوں سے مقیم تھے ہندی واردو کے سینئر صحافی تھے تین برس قبل 3 اکتوبر 2017 کو طویل علالت کے بعد وہ ہم سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد منعقد ایک تعزیتی مجلس میں شریک ہوکرجو میں نے دیکھا اور سنا لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ تقریبا وہی جملے تھے جو سلیم صدیقی صاحب کے تعزیتی جلسے میں ادا کیے گئے تھے۔

مجھے اسی ذہنی کشمکش کی وجہ سے یہ چند سطور لکھنے میں کئی روز لگ گئے

مجھے اسی ذہنی کشمکش کی وجہ سے یہ چند سطور لکھنے میں کئی روز لگ گئے ، میں عبد القادرشمس صاحب  کے سبھی چاہنے والوں سے بس یہی درخواست کروں گا تعزیتی مضامین اور ویبیناروں سے آپ نے فرض کفایہ تو اداکردیا ہے آئیے اب ہم فرض عین ادا کرنے کی جانب قدم بڑھائیں ان کے اہل خانہ سے زبانی اور تحریری ہمدری کرنے کے ساتھ ساتھ یہ پتہ لگائیں کہ ان کے بچوں کی زندگی میں آپ کیا آسانی پیدا کر سکتے ہیں؟ ان کے مسائل کا مستقل حل تلاش کیجیے توکیجیے ۔ اگر ایسا کرپانے میں ہم کامیاب ہوئے تو یہی عبد القادرشمس کے لیے سچی تعزیت ہوگی

 

 

 

مضمون نگار ایشیا ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں

رابطہ

 9891568632

टिप्पणी पोस्ट करा

0 टिप्पण्या